woensdag 21 augustus 2013

ہالینڈ میں پاکستانی ایمبیسی میں چند گھنٹے

دنیا کی کسی بھی ایمبیسی میں ویزا، پاسپورٹ وغیرہ کی غرض سے جاتے ہوئے یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ آیا یہ کام ہو گا کہ نہیں مگر پاکستانی ایمبیسی کا رخ کرو تو پہلے سے ہی یہ خیال ہوتا ہے کہ انھوں نے میری درخواست کو قبول نہیں کرنا۔ ایسا گمان کیوں جنم لیتا ہے یہ ہم آگے بیان کریں گے، مگر ایسی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر درخواست گزار پہلے سے ہی ناکام نظروں کے ساتھ اپنی درخواست برائے ویزہ یا پاسپورٹ وغیرہ کے ہر نکتے پہ غور کرتا ہےکہ کہیں اس پہ اعتراض نہ ہو جائے۔ اس لحاظ سے آپ کی بظاہر مکمل درخواست دہندگی کا حال ہالینڈ کی موجودہ سیاسی پناہ کی پالیسی جیسا ہے کہ جس میں سیاسی پناہ کے خواہشمندوں کو یہ 'ثابت' بھی کرنا ہوتا ہے کہ وہ واقعی پناہ کے 'صحیح' امیدوار ہیں۔


بظاہر تو پاکستانی ایمبیسی نے اپنی ویب سائیٹ پر تمام ضروری معلومات مہیّا کی ہیں جو کہ حصول ویزہ، پاسپورٹ کی حصولی یا تجدید وغیرہ کے لیے ضروری ہیں، مگر آیا یہ مذکورہ دستاویزات آپ کی درخواست کے لیے کافی ہیں، اس کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب آپ کا سامنا کا‏ؤنٹر پہ موجود اہلکار سے ہو۔ اس عمل کا مشاہدہ ہر اس شخص نے کیا ہو گا جس نے اپنے کسی کام کی وجہ سے چند گھنٹے ایمبیسی میں گذارے ہوں۔ اس حوالے سے اپنے چند مشاھدات درج ہیں:

ایمبیسی داخل ہونے پر دیکھا کہ ایک صاحب کاؤنٹر پر کھڑے اس بات پر معترض تھے کہ ان سے اب پوچھی جانے والی دستاویز کا ذکر ایمبیسی کی ویب سائیٹ پر موجود نہیں اور نہ ہی اسے فون پہ آگاہ کیا گیا۔ موصوف نے بچوں کے لیے ۔ICOPN۔ کارڈ بنوانا تھا، جس کے لیے اس نے ویب سائیٹ پہ درج متعلقہ دستاویزات اکٹھی کی تھیں اور آنے سے ایک دن قبل ایمبیسی میں فون کر کے مزید تصدیق کر لی تھی کہ آیا اسکے تیارکردہ کاغذات درست ہیں۔ مگر جب کاؤنٹر پہ پہنچے تو اہلکار نے کہا کہ آپ نے تو اپنے والد کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی بھی لگانی تھی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہ اسے پہلے کیوں نہ بتایا گیا، اور یہ کہ اس کا ذکر ویب سائیٹ پہ بھی موجود نہیں؟ مگر اہلکار کا کہنا تھا کہ آپ کی شناخت کے لیے یہ ضروری ہے، اگر یہ فوٹو کاپی نہ لگائی گئی تو آپکی درخواست مکمل نہ ہو گی۔ اس پر اہلکار اور درخواست گزار کے درمیان ایک بحث چھڑ گئی اور درخواست گزار کی مایوسی کا اندازہ اسکی بلند ہوتی آواز سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔

ایک اور صاحب اپنے بیٹے کے پاسپورٹ کی تجدید کے لیے آئے تھے۔ پانچ سال قبل انھوں نے یہ پاسپورٹ یہیں سے تجدید کرایا تھا۔ موصوف کے کاغذات کو دیکھ کر ایمبیسی کے اہلکار نے کہا کہ آپ اپنا 'ب-فارم' بھی دیجیے۔ درخواست گزار نے کہا کہ 'ب-فارم' تو پاسپورٹ بنواتے ہوئے ضروری ہوتا ہے اور ویسے بھی یہ پاسپورٹ پہلے یہیں سے تجدید ہوا ہے اس وقت کسی نے 'ب-فارم' کا مطالبہ نہ کیا تھا۔ مگر ایمبیسی کے عملہ کے کان پر کوئی جوں تک نہ رینگی اور وہ اپنی بات پہ بضد رہے کہ 'ب-فارم' کے ساتھ دوبارہ آئیں۔ اب ذرا بتائیے کہ دور دراز کے شہروں سے دیگرکام چھوڑکر روزانہ ایمبیسی کے چکر لگانا کیا آسان کام ہے۔

بظاہر تو عام آدمی ایمبیسی کے عملے کی من مانی باتوں کا شکار نظر آتا ہے مگر یہ اہلکار ایک بڑے کھیل کے محض پرزے نظر آتے ہیں۔ دیکھا جائے تو 'نادرا' نے اپنی ویب سائیٹ اور خدمات کو کافی بہتر کیا ہے کہ اندرون اوربیرون ملک آپ کسی بھی جگہ سے اپنے ڈاکومنٹس چیک کروا اورمنگوا سکتے ہیں۔ 'نادرا' کے یہ ڈاکومنٹس حکومت کے لیے ذریعۂآمدنی بھی ہیں مگراس کے پیچھے کچھ اور پہلو بھی پنہاں ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے امریکنوں نے اپنی نام نہاد 'دھشت گردی کے خلاف جنگ' کے لیے کچھہ اخراجات 'نادرا' کی نگہداشت پہ لگائے ہیں تاکہ اندرون اوربیرون ملک پاکستانیوں پہ بہتر نظر رکھی جا سکے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ 'نادرا' کے سسٹم میں اندراج کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جب 'نادرا' کے اس سسٹم میں داخلے کے لیے بیرون ملک ایمبیسیوں کا عملہ ضرروی اور غیر ضرروی دستاویزات کا مطالبہ کرتا ہے، تو بظاہر ان کا مقصد یہ ہےکہ سسٹم میں اندراج کے عمل میں کوئی خامی نہ رہے۔ مگر عوام کے لیے یہ سب کچھہ بسا اوقات ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ نتیجتا" اگر ایمبیسی کے اہلکار آپ کے کاغذات قبول کر لیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپکے سر سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔