vrijdag 27 september 2013

ایمان افروزی اور جدید شہری حقوق

کچھ دن قبل ایمسٹرڈم کی ایک مسجد میں سننے میں آیا کہ فلاں پاکستانی سے اشیاء روزمرہ نہ خریدی جائیں کیونکہ اس کا تعلق احمدیہ جماعت سے ہے۔ یہ بات اس پس منظر میں ہو رہی تھی کہ جب پاکستان میں مختلف مذہبی جماعتیں 1974 میں احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیۓ جانے کی یاد میں پروگرام اور جلسے وغیرہ کر رہی تھیں۔ ان مواقع پر عوام کی غیرت ایمانی کو للکار کر یہ کہا گیا کہ احمدیہ جماعت سے وابستہ افراد کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے۔ اس کاروباری بائیکاٹ کی گونج اب ایمسٹرڈیم تک سنائی دے رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ہم نے پاکستانی شہری کی تعریف ایمان افروزی کی بنا ء پہ کرنی ہے یا بطور ایک ایسے فرد کے جو بلا تفریق مذہب و فرقہ، ریاست کے سامنے برابر ہو؟

 


 

اگر ہم پاکستان کی مختصر تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو لگتا ہے کہ ایمان افروزی کے جوش نے ان بنیادی شہری آزادیوں کو ملیامیٹ کر دیا کہ جن کے حصول کا وعدہ اس مملکت کے بنانے والوں نےکیا تھا۔ کون اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے کارکنوں میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے افراد شامل تھے، مگر ہماری ایمان افروزی نے تزکیۂنفس کی جگہ معاشرے کی بھل صفائی کے عمل سے اقلیتوں کو بنیادی شہری حقوق سے محروم کرنا شروع کر دیا کہ یہ مذہب، نسل یا فرقے کے لحاظ سے مختلف تھے۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 1965 کی جنگ کے شھداء جیسے میجر جنرل افتخارجنجوعہ وغیرہ کی تصاویر ہماری درسی کتب کے نصاب سےآہستہ آہستہ غائب ہونا شروع ہو گئیں کہ جب معلوم ہوا کہ ان افراد کا تعلق احمدیہ جماعت سے ہے۔


 

اس ایمان افروزی کے حاصل کرنے کی لہر جو اس وقت پاکستان میں چل رہی ہے، کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے غیر مسلموں اور بعد میں قرار دیےغیر مسلم یعنی احمدیوں کی تو ہوا بند کر رکھی ہے، مگر اب اس لہر نے معاشرے میں دیگر کئی ایسےسومنات تلاش کر لیے ہیں کہ جن کے بت توڑنا ایمان افروزی کا حصہ بن گیا ہے۔ اب کہیں شیعہ جلوسوں اور امام بارگاہوں پہ حملے ہو رہے ہیں، توکہیں بریلویوں کی مساجد اور مزارت پر۔ حتّی کہ دیوبندیوں کے جنازے بھی محفوظ نہیں رہے۔


 

توضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس جذبۂ ایمان افروزی کو ذاتی اصلاح کے لیے استعمال کریں: اس سے اپنی ذات کو نکھاریں، اور صرف وہ اجتماعی امور کہ جن سے معاشرتی فلاح ممکن ہو۔ اسے بین المذاہب نفرت اور تفرقہ بازی کے لیے استعمال نہ کیجیے۔ مزید یہ کہ بحیثیت قوم ایمان افروزی کی بجائے بنیادی شہری حقوق اور آزادیوں کے حصول کی کوششیں، بلا رنگ ونسل ، فرقہ ومذہب، وہ واحد پیمانہ ہے کہ جوہماری مشترکہ شناخت کا باعث ہونا چاہیے۔ اگر ہم نے پاکستان کو جدید فلاحی ریاست دیکھنا ہے توریاست اور اس کے اھل حل وعقد کو ایمان افروزی کے منفی فروغ کے بجائے بنیادی شہری حقوق کی فراہمی کے لیے کام کرنا ہو گا۔ یہاں اہل ممبر، چاہے وہ ایمسٹرڈیم میں ہیں یا یورپ میں، سے درخواست ہے کہ خدارا اپنے ارد گرد دیکھیے کہ جن ملکوں میں آپ قیام پذیر ہیں ان میں فرد اور ریاست کا رشتہ کس طرح قائم ہے۔ روایات بے شک اہم ہوں مگر ان روایات سے بقائے باہمی کا درس تلاش کیجیے۔


 

 

woensdag 21 augustus 2013

ہالینڈ میں پاکستانی ایمبیسی میں چند گھنٹے

دنیا کی کسی بھی ایمبیسی میں ویزا، پاسپورٹ وغیرہ کی غرض سے جاتے ہوئے یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ آیا یہ کام ہو گا کہ نہیں مگر پاکستانی ایمبیسی کا رخ کرو تو پہلے سے ہی یہ خیال ہوتا ہے کہ انھوں نے میری درخواست کو قبول نہیں کرنا۔ ایسا گمان کیوں جنم لیتا ہے یہ ہم آگے بیان کریں گے، مگر ایسی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر درخواست گزار پہلے سے ہی ناکام نظروں کے ساتھ اپنی درخواست برائے ویزہ یا پاسپورٹ وغیرہ کے ہر نکتے پہ غور کرتا ہےکہ کہیں اس پہ اعتراض نہ ہو جائے۔ اس لحاظ سے آپ کی بظاہر مکمل درخواست دہندگی کا حال ہالینڈ کی موجودہ سیاسی پناہ کی پالیسی جیسا ہے کہ جس میں سیاسی پناہ کے خواہشمندوں کو یہ 'ثابت' بھی کرنا ہوتا ہے کہ وہ واقعی پناہ کے 'صحیح' امیدوار ہیں۔


بظاہر تو پاکستانی ایمبیسی نے اپنی ویب سائیٹ پر تمام ضروری معلومات مہیّا کی ہیں جو کہ حصول ویزہ، پاسپورٹ کی حصولی یا تجدید وغیرہ کے لیے ضروری ہیں، مگر آیا یہ مذکورہ دستاویزات آپ کی درخواست کے لیے کافی ہیں، اس کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب آپ کا سامنا کا‏ؤنٹر پہ موجود اہلکار سے ہو۔ اس عمل کا مشاہدہ ہر اس شخص نے کیا ہو گا جس نے اپنے کسی کام کی وجہ سے چند گھنٹے ایمبیسی میں گذارے ہوں۔ اس حوالے سے اپنے چند مشاھدات درج ہیں:

ایمبیسی داخل ہونے پر دیکھا کہ ایک صاحب کاؤنٹر پر کھڑے اس بات پر معترض تھے کہ ان سے اب پوچھی جانے والی دستاویز کا ذکر ایمبیسی کی ویب سائیٹ پر موجود نہیں اور نہ ہی اسے فون پہ آگاہ کیا گیا۔ موصوف نے بچوں کے لیے ۔ICOPN۔ کارڈ بنوانا تھا، جس کے لیے اس نے ویب سائیٹ پہ درج متعلقہ دستاویزات اکٹھی کی تھیں اور آنے سے ایک دن قبل ایمبیسی میں فون کر کے مزید تصدیق کر لی تھی کہ آیا اسکے تیارکردہ کاغذات درست ہیں۔ مگر جب کاؤنٹر پہ پہنچے تو اہلکار نے کہا کہ آپ نے تو اپنے والد کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی بھی لگانی تھی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہ اسے پہلے کیوں نہ بتایا گیا، اور یہ کہ اس کا ذکر ویب سائیٹ پہ بھی موجود نہیں؟ مگر اہلکار کا کہنا تھا کہ آپ کی شناخت کے لیے یہ ضروری ہے، اگر یہ فوٹو کاپی نہ لگائی گئی تو آپکی درخواست مکمل نہ ہو گی۔ اس پر اہلکار اور درخواست گزار کے درمیان ایک بحث چھڑ گئی اور درخواست گزار کی مایوسی کا اندازہ اسکی بلند ہوتی آواز سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔

ایک اور صاحب اپنے بیٹے کے پاسپورٹ کی تجدید کے لیے آئے تھے۔ پانچ سال قبل انھوں نے یہ پاسپورٹ یہیں سے تجدید کرایا تھا۔ موصوف کے کاغذات کو دیکھ کر ایمبیسی کے اہلکار نے کہا کہ آپ اپنا 'ب-فارم' بھی دیجیے۔ درخواست گزار نے کہا کہ 'ب-فارم' تو پاسپورٹ بنواتے ہوئے ضروری ہوتا ہے اور ویسے بھی یہ پاسپورٹ پہلے یہیں سے تجدید ہوا ہے اس وقت کسی نے 'ب-فارم' کا مطالبہ نہ کیا تھا۔ مگر ایمبیسی کے عملہ کے کان پر کوئی جوں تک نہ رینگی اور وہ اپنی بات پہ بضد رہے کہ 'ب-فارم' کے ساتھ دوبارہ آئیں۔ اب ذرا بتائیے کہ دور دراز کے شہروں سے دیگرکام چھوڑکر روزانہ ایمبیسی کے چکر لگانا کیا آسان کام ہے۔

بظاہر تو عام آدمی ایمبیسی کے عملے کی من مانی باتوں کا شکار نظر آتا ہے مگر یہ اہلکار ایک بڑے کھیل کے محض پرزے نظر آتے ہیں۔ دیکھا جائے تو 'نادرا' نے اپنی ویب سائیٹ اور خدمات کو کافی بہتر کیا ہے کہ اندرون اوربیرون ملک آپ کسی بھی جگہ سے اپنے ڈاکومنٹس چیک کروا اورمنگوا سکتے ہیں۔ 'نادرا' کے یہ ڈاکومنٹس حکومت کے لیے ذریعۂآمدنی بھی ہیں مگراس کے پیچھے کچھ اور پہلو بھی پنہاں ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے امریکنوں نے اپنی نام نہاد 'دھشت گردی کے خلاف جنگ' کے لیے کچھہ اخراجات 'نادرا' کی نگہداشت پہ لگائے ہیں تاکہ اندرون اوربیرون ملک پاکستانیوں پہ بہتر نظر رکھی جا سکے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ 'نادرا' کے سسٹم میں اندراج کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جب 'نادرا' کے اس سسٹم میں داخلے کے لیے بیرون ملک ایمبیسیوں کا عملہ ضرروی اور غیر ضرروی دستاویزات کا مطالبہ کرتا ہے، تو بظاہر ان کا مقصد یہ ہےکہ سسٹم میں اندراج کے عمل میں کوئی خامی نہ رہے۔ مگر عوام کے لیے یہ سب کچھہ بسا اوقات ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ نتیجتا" اگر ایمبیسی کے اہلکار آپ کے کاغذات قبول کر لیں تو آپ سمجھتے ہیں کہ آپکے سر سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔



zaterdag 18 mei 2013

Verkiezingen in Pakistan: ‘revolutie’ bleef uit

De verkiezingsuitslag van afgelopen weekend gaf een dominante meerderheid aan de centrumrechtse partij van Sharif; de verkiezingen zijn een enorme nederlaag voor de regerende coalitie onder leiding van de Volkspartij van Zardari, weduwnaar van de vermoorde Bhutto. Economisch wanbeleid, gebrek aan veiligheid, werkloosheid en corruptie onder Zadari leidden tot impopulariteit van de partij. De hype rondom de politieke mars van Imran Khan bleef vooral een media aangelegenheid.


De verkiezingen betekenen een stap richting het versterken van de democratie in het land. Het is de eerste keer dat de macht overgaat van de ene democratisch gekozen regering naar de andere zonder een inmenging van het machtige instituut van het leger. De opkomst, meer dan 60%, heeft bevestigd dat een overweldigend aantal kiezers de dreigementen van de Taliban heeft genegeerd, ondanks het feit dat meer dan honderd mensen omkwamen in de week voor de verkiezingen.

Concurrerende utopieën

De hoge opkomst is vooral te danken aan een grote mobilisatie onder jongeren en vrouwen. Imran Khan, een bevlogen, extravagante en charismatische leider die eerder aanvoerder was van het nationale cricketteam, slaagde erin om jongeren van welgestelde families, studenten, en de opkomende middenklasse in met name de rijke delen van steden te mobiliseren. Wat ook wel de ‘burger generatie’ wordt genoemd, werd gemobiliseerd tegen de corruptie en het machtmisbruik door gevestigde politieke partijen en voor een ‘change’. Khan beloofde economische rechtvaardigheid en welvaart zoals in de Scandinavische landen. Het ‘Scandinavische model’ is volgens Khan immers afgeleid van ‘Umar ka qanoon’ ofwel het Systeem van Umar - een verwijzing naar de tijd van de tweede Kalief van de Islam die bekendstaat om rechtvaardigheid en welvaart. Khan wilde ook een onafhankelijk buitenlandse politieke bedrijven en Pakistan weghalen uit het pro-Amerikaanse buitenlandbeleid van de huidige regering. Wat dat betreft zag hij de drone-aanvallen op de tribale gebieden als schendingen van de Pakistaanse soevereiniteit. Deze retoriek werd beloond en leverde hem een meerderheid van stemmen op in een provincie langs de grens met Afghanistan die vooral getroffen is door de oorlog. Zijn aanhang is religieusgezien conservatief en veelal actief op de sociale media. Echter, gezien hun afkomst kunnen wij het effect van hun ‘change’ niet vergelijken met de jongeren uit de Arabische lente. Gezien het uitslag van de verkiezingen bleef het vooral bij een mediahype.

Het charisma en de utopie van Khan konden de traditionele delen van stad en platteland niet naar zijn kant bewegen. Daar slaagde zijn rivaal, Sharif, wel in. Vooral bekend als een kalm, ervaren en soms zelfs saai persoon, wordt de staalmagnaat voor de derde keer premier van Pakistan. In zijn voorgaande perioden bouwde hij grote projecten zoals snelwegen, en nu belooft hij een sneltrein in grote steden waar mensen nog steeds leiden onder periodieke stroomuitval. Zijn aanhang bevindt zich vooral onder de traditionele middenklasse, zoals winkeliers en handelaars, en onder de kleine en middenstand in grote en kleine steden in de provincie Punjab. Hij streeft naar economische liberalisering en een pro-industrie beleid om zo van Pakistan alsnog een ‘Aziatische tijger’ te maken. Wat dat betreft wil hij de banden met India verbeteren om investering uit dat land te realiseren. Maar dat is niet makkelijk, zoals eerder bleek in 1999 toen zijn wens werd getorpedeerd door het machtige leger en zijn regering naar huis werd gestuurd.

Veiligheid een harde noot

Het economische beleid staat niet los van de veiligheidssituatie in Pakistan. Het land wordt geteisterd door geweld van de Taliban en andere aan Al-Qaeda gelieerde extremistische groeperingen. Anders dan de vorige regering wil Sharif ‘serieuze’ onderhandelen met de Pakistaanse Taliban ten behoeve van vrede in het land. Soms wordt hij door het liberale circuit in Pakistan beticht van warme banden met enkele extreme groeperingen in Pakistan. Maar gezien het politieke mandaat dat hij heeft gekregen, moet hij wel in staat zijn de extremisten onder de duim te houden als hij veiligheidssituatie in het land wil verbeteren. Anders dan de vorige regering wil hij een onafhankelijk buitenlandbeleid met beperkte Amerikaanse inmenging. Wat dat betreft wil hij het beleid van Pakistaanse deelname aan het Amerikaanse anti-terreurbeleid en de luchtaanvallen met onbemande vliegtuigen, zogenaamde drones, herzien.

In dit opzicht komt Sharif opnieuw tegenover het leger te staan. Traditioneel heeft het Pakistaanse leger een sleutelrol in het bepalen van binnenlands en buitenlands beleid. Kan hij het leger overtuigen een andere koers te varen jegens de Taliban? Volgend jaar gaan de Westerse troepen weg uit Afghanistan. Hoewel Sharif heeft beloofd dat hij zal meewerken aan deze terugtrekking, blijft het echter de vraag in hoeverre hij de Taliban kan overtuigen mee te werken aan het vredesproces in Afghanistan. Cruciaal wat dat betreft is de opstelling van het Pakistaanse leger: zal zij zich vinden in een vredesoplossing met de Taliban in zowel Pakistan als Afghanistan? Alleen een adequate oplossing van de Talibankwestie kan de veiligheidssituatie in Pakistan verbeteren. En dat is tevens een voorwaarde voor de economische ontwikkeling waarnaar Sharif streeft.